Thursday, 11 August 2016

البقرہ 5-1


بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اردو:
شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
اردو:
الم
تفسیر مکی:
ف۱ الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾
اردو:
یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے
تفسیر مکی:
ف۱ اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسے کہ دوسرے مقام پر ہے (تَنْزِیْل الکِتابِ لا رَیْبَ فِیْہ مِنْ رَّبِّ العٰلَمِیْنَ) علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی صداقت میں جو احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔
ف۲ ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سراب صرف وہی لوگ ہونگے جو آبِ حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں اس کے اندر ہدایت کی طلب یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اسے ہدایت کہاں سے اور کیوںکر حاصل ہو سکتی ہے۔(2)
الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾
اردو:
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔
ف۲ اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔
ف۳ اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔(3)
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾
اردو:
اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالٰی ضرور فرماتا۔(4)
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾
اردو:
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر و عناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔(5)

Wednesday, 10 August 2016

الفاتحہ 7-1

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اردو:
شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
تفسیر مکی:
۱ یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (٣ ١نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ اُن کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اُس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اُس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ بِسْمِ اللّٰهِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورۃ نمل کی آیت نمبر٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بِسْمِ اللّٰهِ اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ بِسْمِ اللّٰهِ کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بِسْمِ اللّٰهِ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ، سے پہلے ( اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾
اردو:
سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾
اردو:
بڑا مہربان نہایت رحم والا
تفسیر مکی:
ف۱ یعنی اللہ تعالٰی بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہو گا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔(3)
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾
اردو:
انصاف کے دن کا حاکم
تفسیر مکی:
ف۱دنیا میں بھی اگرچہ کیئے کی سزا کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالٰی ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اور صرف اللہ تعالٰی ہی ہوگا اللہ تعالٰی اس روز فرمائے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟ پھر وہی جواب دے گا صرف ایک اللہ غالب کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔(4)
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾
اردو:
(اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کر دیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالٰی کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟ اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو فرمایا (وتعانوا علی البر والتقوی) نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصرا بیان کر دی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت۔ توحید الوہیت۔ اور توحید صفات ۔۱۔ توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا مالک رازق اور مدبر صرف اللہ تعالٰی ہے اور اس توحید کو تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا۔ مثلا فرمایا۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ (اللہ) (یعنی سب کام کرنے والا اللہ ہے) (سورہ یونس۳۱) دوسرے مقام پر فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے؟ ساتواں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ ہرچیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (المومنون ۸٤۔ ۸۹) وغیرھا من الآیات۔ ۲۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق اللہ تعالٰی ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کیلئے یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا، اسکے نام کی نذر نیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ کہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔۳۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالٰی کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں انکو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یا اس قسم کی اور صفات الہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہو گا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔(5)
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾
اردو:
ہم کو سیدھے رستے چلا
تفسیر مکی:
ف۱ ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزلِ مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزلِ مقصود) حاصل ہو جائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ، الاسلام، ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔(6)
صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
اردو:
ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے
تفسیر مکی:
ف۱ یہ صراطِ مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
ف۲ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔(وَمَنْ يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا) اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (وَلاَ الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں (اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالٰی اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ سورہ کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی اسلیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔(7)

بیٹی ۔ رحمت اور بخشش

لسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
اللّ تعالٰی کی خاص رحمت اس گھر پر ہوتی ہے جس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے اور اگر ہم اسی بیٹی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھیں گے تو اللّہ کی ناراضگی کا سبب بھی بنے گا اور انسان کی دنیا و آخرت برباد ہو جائے گی ۔ لیکن پیار و محبت کا معاملہ رکھنے پر اللّہ کی مدد شاملِ حال رہے گی اور دنیا و آخرت میں بھی آسانیاں عطا ہوں گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
جب کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو اللّہ تعالٰی اس بچے سے فرماتا ہے کہ جا اور اپنے باپ کا بازو بن جا، مگر جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّہ تعالٰی اس بچی سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ مجھے قسم ہے اپنی ذات کی آج سے میں خود تیرے باپ کا بازو ہوں "
ایک اور حدیث میں ہے کہ :۔
جس کی تین بیٹیاں یا تیین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور پھر وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے اور ان کے معاملے میں اللّہ سے ڈرتا رہے تو اس کے لئے جنت ہے
عورت کا وجود ، رحمت ہی رحمت ہے ۔ بخشش ہی بخشش ہے ۔ اور دنیا و آخرت میں اللّہ کی خوشنودی کا باعث بھی ہے ۔ عورت کسی روپ میں ہو اللّہ نے اسے خیر و برکت ہی کا باعث بنایا ہے ۔
جب بیٹی اور بہن کے روپ میں دنیا میں آئی تو والد اور بھائیوں کو جنت میں لے جانے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت دلوانے کا سبب قرار دی گئی ۔
جب اس نے بیوی کا روپ اختیار کیا تو اپنے شوہر کا آدھا ایمان مکمل کرنے والی قرار دی گئی۔
اور جب ماں جیسی عظیم ہستی بنی تو اولاد کی جنت اس کے قدموں تلے ا گئی۔
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
جس کی تین بیٹیاں ہوں، وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ عرض کیا: اور دو ہوں تو ؟ فرمایا: دو ہوں تب بھی ، عرض کیا: اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا : اگر ایک ہو تو بھی ۔
رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
بہترین اولاد با پردہ بیٹیاں ہیں ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللّہ تعالٰی فرشتوں کو بھیجتا ہے جو آ کر کہتے ہیں
السلام علیکم اھلِ البیت
یعنی اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو ۔"
پھر فرشتے اس بچی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک ناتواں (یعنی کمزور) سے پیدا ہوئی ہے، جو شخص اس ناتواں جان کی پرورش کی ذمہ داری لے گا قیامت تک اللّہ عزوجل کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی ۔
ان تمام احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو نہ صرف حقوق دئیے ہیں بلکہ اس سے پیار و محبت سے پیش آنے پر جنت کی ضمانت بھی دی ہے، اس سے اچھے سلوک کا حامل شخص جنت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں داخل ہو گا ایسے میں اگر کوئی جنت حاصل نہ کرے تو وہ کوئی بدقسمت ہی ہو گا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں : میرے پاس ایک غریب اور مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے
 آئی ، میں نے اسے کھانے کے لئے تین کھجوریں دیں ، پس اس نے دو کھجوریں تو اپنی دو بیٹیوں کو دی دیں ، اور ایک کھجور اس نے کھانے کے لئے اپنے منہ کی طرف بڑھائی ، کہ وہ بھی اس سے اس کی بیٹیوں نے کھانے کے لئے مانگ لی ، چنانچہ اس نے وہ کھجور بھی جسے وہ خود کھانا چاہتی تھی ، اس کے دو حصے کر کے اپنی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دی ، مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی ، میں نے اس واقعے کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللّہ تعالٰی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے کے لئے جنت واجب فرما دی ہے ( یا فرمایا) کہ اس کی وجہ سے اسے جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا ہے "
حجتہ الوداع کے موقع پر بھی اپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :۔
عورتوں کے بارے میں اللّہ سے ڈرتے رہنا
آخری خطبے میں بھی عورتوں سے اچھے سلوک کے بارے میں بھی زور دیا گیا ہے ۔
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Thursday, 28 July 2016

بیٹی


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
عورت 
جو ایک ماں ہے ، ایک بہن ہے ، ایک بیوی ہے اور پھر بیٹی کا روپ ہے ، ہر رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو وہ عزت و احترام دیا جائے جو اس کا حق ہے ـ وہ عزت و احترام جو اس سے پہلے کسی مذہب میں عورت کو نہیں دیا گیا ، اسلام نے سب سے پہلے عورت کے حقوق دینے کی بات کی ـ اور پھر دنیا نے دیکھا اسلام نےاسی عورت کو ماں کے روپ میں جنت ، بہن کے روپ میں جنت کا حق دار ، بیوی کے روپ میں لباس اور بیٹی کے روپ میں اللّہ کی رحمت کہا ـ 
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسی عورت کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے ـ سب سے پہلے گھروں میں ہی بیٹا اور بیٹی کے درمیان فرق کیا جاتا ہے ـ بیٹے کو تو ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں لیکن بیٹی کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ـ جب ایک بیٹاگھر میں اس طرح کی صورت حال میں پرورش پائے گا تو وہ کیسے بیٹی کو اس کے حقوق دے گا ـ جبکہ اس نے ہمیشہ اپنے اپ کو برتر پایا ہے ـ اس احساس برتری کے ساتھ پرورش پانے والا بیٹا یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اسے دوسرے لوگوں کو بھی حقوق دینے ہیں ـ اور وہ دوسرے کوئی اور نہیں اس کے اپنے ہیں ـ 
بیٹی جو اللّہ کی رحمت کا دروازہ ہے ، بخشش کا ذریعہ ہے ، جہنم کی ڈھال ہے ـ لیکن ابھی بھی بہت سے لوگ بیٹی کی پیدائش پر خوشی محسوس نہیں کرتے ، جبکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ 
جس کسی نے دو یا تین لڑکیوں کی پرورش کی ، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں " انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے " 
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ ایک ادمی تھا ، اس ادمی کے پاس اس کا بیٹا ایا ، اس نے اسے بوسہ دیا ( یعنی شفقت سے چوما ) اور ران پر بیٹھا لیا ، پھر اس کی بیٹی ا گئی ، اس ادمی نے اسے پہلو میں بیٹھا لیا تو اپُرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ادمی سے فرمایا کہ تم نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا ؟؟؟ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹے اور بیٹی میں پیار اور شفقت  کا فرق کرنا سخت ناپسند گزرا

انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین

اللہ نے فرمایا


سورت التوبہ
رَضُوۡا بِاَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مَعَ الۡخَوَالِفِ وَ طُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ 
فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۸۷﴾
اردو:
یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں۔ (گھروں میں بیٹھ) رہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے تو یہ سمجھتے ہی نہیں
تفسیر مکی:
٨٧۔١ دلوں پر مہر لگ جانا یہ مسلسل گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔(87)
سورت الفرقان
وَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡحَیِّ الَّذِیۡ لَا یَمُوۡتُ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِہٖ ؕ وَ کَفٰی بِہٖ بِذُنُوۡبِ عِبَادِہٖ خَبِیۡرَا ﴿ۚۛۙ۵۸﴾
اردو:
اور اس (خدائے) زندہ پر بھروسہ رکھو جو (کبھی) نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔ اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے(58)
سورت الشوٰری
وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ﴿ؕ۳۲﴾
اردو:
اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں (جو) گویا پہاڑ (ہیں)
تفسیر مکی:
٣٢۔١ سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے تو سمندروں میں ہی کھڑے رہیں۔(32)

Thursday, 21 July 2016

ہمارا عمل


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ



آج کل ہر شخص اس بات کا گلہ کرتا ہے کہ سب لوگوں کے طور طریقے اچھے نہیں ہیں ـ سب لوگ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ـ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج کل سوشل میڈیا پر جو بھی اچھی بات پڑھتے ہیں اس کو دوسروں کو بھیج دیتے ہیں ، لیکن خود عمل کرنے میں صفر ہیں ـ جبکہ ہمیں پہلے خود عمل کرنا چاہیے اور پھر آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ـ جب ہم کسی بھی اچھی بات کو پڑھیں اور خود عمل کر کے دیکھائیں گے تو پھر ثواب کے لئے دوسرے کو کہنا نہیں پڑے گا اپ کا اچھا عمل دیکھ کر دوسرے خود عمل کریں گے ـ لیکن ہم دوسرے کے عمل کر کے ثواب لینا چاہتے ہیں ـ لیکن یہ سمجھ لیں کہ اپ کو بھی ثواب تبھی ملے گا جب اپ خود اس پر عمل کریں گے ، صرف دوسروں کو نصیحت کرنے سے اثر نہیں ہو گا ، نصیحت کا اثر بھی اس وقت ہوتا ہے جب اپ خود اس پر عمل کر رہے ہوں ـ کہنا آسان ہے اور عمل کرنا مشکل ہے لیکن پہلے اپ کو خود مثال بن کر دیکھانا ہے ـ اسی وقت تو معاشرے میں تبدیلی آئے گی صرف دوسروں کو کہنے سے تو کچھ بھی نہیں ہو گا ـ

ایک دفعہ ایک عورت اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اپنے بچے کے بارے میں عرض کی کہ اپ صلی ال
علیہ وسلم اسے شہد کی ایک قسم کھانے سے منع فرمائیں ، اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دو دن بعد آنے کے لئے کہا ـ دو دن بعد جب وہ عورت آئی تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے کو شہد کھانے سے منع فرمایا ، اس عورت نے عرض کیا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن بعد کیوں منع فرمایا ہے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن تم نے اپنے بچے کو شہد کھانے سے منع کرنے کے لئے کہا تھا تو اس دن میں نے خود بھی وہ شہد کھایا تھا تو میں بچے کو کیسے منع کر سکتا تھا اب میں نے خود بھی وہ شہد کھانا چھوڑا ہے تو تمہارے بچے کو بھی کھانے سے منع کیا ہے ـ
یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں بھی پہلے خود اچھی باتوں پر عمل کرنا ہو گا پھر دوسرے لوگوں کو عمل کے لئے کہا جا سکتا ہے ـ اگر اللّہ کے نبی عمل کرنے کے بعد نصیحت کر رہے ہیں تو ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا ہو گا صرف کہنا نہیں ہے ـ
اور ایک آخری بات۰۰۰۰
جب اپ کا دوست اسی طرح کی کوئی اچھی اور نیکی کی بات اپ کو بھیجے تو کیا اپ عمل کرتے ہیں جو اپ کے دوست کے لئے ثواب کا ذریعہ بنے؟؟؟؟
سوچئے گا ضرور۰۰۰
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ