Thursday, 11 August 2016

البقرہ 5-1


بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اردو:
شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
اردو:
الم
تفسیر مکی:
ف۱ الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾
اردو:
یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے
تفسیر مکی:
ف۱ اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسے کہ دوسرے مقام پر ہے (تَنْزِیْل الکِتابِ لا رَیْبَ فِیْہ مِنْ رَّبِّ العٰلَمِیْنَ) علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی صداقت میں جو احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔
ف۲ ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سراب صرف وہی لوگ ہونگے جو آبِ حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں اس کے اندر ہدایت کی طلب یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اسے ہدایت کہاں سے اور کیوںکر حاصل ہو سکتی ہے۔(2)
الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾
اردو:
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔
ف۲ اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔
ف۳ اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔(3)
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾
اردو:
اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالٰی ضرور فرماتا۔(4)
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾
اردو:
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر و عناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔(5)

Wednesday, 10 August 2016

الفاتحہ 7-1

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اردو:
شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
تفسیر مکی:
۱ یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (٣ ١نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ اُن کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اُس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اُس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ بِسْمِ اللّٰهِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورۃ نمل کی آیت نمبر٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بِسْمِ اللّٰهِ اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ بِسْمِ اللّٰهِ کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بِسْمِ اللّٰهِ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ، سے پہلے ( اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾
اردو:
سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾
اردو:
بڑا مہربان نہایت رحم والا
تفسیر مکی:
ف۱ یعنی اللہ تعالٰی بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہو گا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔(3)
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾
اردو:
انصاف کے دن کا حاکم
تفسیر مکی:
ف۱دنیا میں بھی اگرچہ کیئے کی سزا کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالٰی ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اور صرف اللہ تعالٰی ہی ہوگا اللہ تعالٰی اس روز فرمائے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟ پھر وہی جواب دے گا صرف ایک اللہ غالب کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔(4)
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾
اردو:
(اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
تفسیر مکی:
ف۱ عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کر دیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالٰی کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟ اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو فرمایا (وتعانوا علی البر والتقوی) نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصرا بیان کر دی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت۔ توحید الوہیت۔ اور توحید صفات ۔۱۔ توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا مالک رازق اور مدبر صرف اللہ تعالٰی ہے اور اس توحید کو تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا۔ مثلا فرمایا۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ (اللہ) (یعنی سب کام کرنے والا اللہ ہے) (سورہ یونس۳۱) دوسرے مقام پر فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے؟ ساتواں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ ہرچیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (المومنون ۸٤۔ ۸۹) وغیرھا من الآیات۔ ۲۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق اللہ تعالٰی ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کیلئے یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوۃ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا، اسکے نام کی نذر نیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ کہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔۳۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالٰی کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں انکو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یا اس قسم کی اور صفات الہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہو گا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔(5)
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾
اردو:
ہم کو سیدھے رستے چلا
تفسیر مکی:
ف۱ ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزلِ مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزلِ مقصود) حاصل ہو جائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ، الاسلام، ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔(6)
صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
اردو:
ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے
تفسیر مکی:
ف۱ یہ صراطِ مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
ف۲ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔(وَمَنْ يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا) اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (وَلاَ الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں (اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالٰی اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ سورہ کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی اسلیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔(7)

بیٹی ۔ رحمت اور بخشش

لسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
اللّ تعالٰی کی خاص رحمت اس گھر پر ہوتی ہے جس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے اور اگر ہم اسی بیٹی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھیں گے تو اللّہ کی ناراضگی کا سبب بھی بنے گا اور انسان کی دنیا و آخرت برباد ہو جائے گی ۔ لیکن پیار و محبت کا معاملہ رکھنے پر اللّہ کی مدد شاملِ حال رہے گی اور دنیا و آخرت میں بھی آسانیاں عطا ہوں گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
جب کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو اللّہ تعالٰی اس بچے سے فرماتا ہے کہ جا اور اپنے باپ کا بازو بن جا، مگر جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّہ تعالٰی اس بچی سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ مجھے قسم ہے اپنی ذات کی آج سے میں خود تیرے باپ کا بازو ہوں "
ایک اور حدیث میں ہے کہ :۔
جس کی تین بیٹیاں یا تیین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور پھر وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے اور ان کے معاملے میں اللّہ سے ڈرتا رہے تو اس کے لئے جنت ہے
عورت کا وجود ، رحمت ہی رحمت ہے ۔ بخشش ہی بخشش ہے ۔ اور دنیا و آخرت میں اللّہ کی خوشنودی کا باعث بھی ہے ۔ عورت کسی روپ میں ہو اللّہ نے اسے خیر و برکت ہی کا باعث بنایا ہے ۔
جب بیٹی اور بہن کے روپ میں دنیا میں آئی تو والد اور بھائیوں کو جنت میں لے جانے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت دلوانے کا سبب قرار دی گئی ۔
جب اس نے بیوی کا روپ اختیار کیا تو اپنے شوہر کا آدھا ایمان مکمل کرنے والی قرار دی گئی۔
اور جب ماں جیسی عظیم ہستی بنی تو اولاد کی جنت اس کے قدموں تلے ا گئی۔
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
جس کی تین بیٹیاں ہوں، وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ عرض کیا: اور دو ہوں تو ؟ فرمایا: دو ہوں تب بھی ، عرض کیا: اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا : اگر ایک ہو تو بھی ۔
رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
بہترین اولاد با پردہ بیٹیاں ہیں ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللّہ تعالٰی فرشتوں کو بھیجتا ہے جو آ کر کہتے ہیں
السلام علیکم اھلِ البیت
یعنی اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو ۔"
پھر فرشتے اس بچی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک ناتواں (یعنی کمزور) سے پیدا ہوئی ہے، جو شخص اس ناتواں جان کی پرورش کی ذمہ داری لے گا قیامت تک اللّہ عزوجل کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی ۔
ان تمام احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو نہ صرف حقوق دئیے ہیں بلکہ اس سے پیار و محبت سے پیش آنے پر جنت کی ضمانت بھی دی ہے، اس سے اچھے سلوک کا حامل شخص جنت میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں داخل ہو گا ایسے میں اگر کوئی جنت حاصل نہ کرے تو وہ کوئی بدقسمت ہی ہو گا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں : میرے پاس ایک غریب اور مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے
 آئی ، میں نے اسے کھانے کے لئے تین کھجوریں دیں ، پس اس نے دو کھجوریں تو اپنی دو بیٹیوں کو دی دیں ، اور ایک کھجور اس نے کھانے کے لئے اپنے منہ کی طرف بڑھائی ، کہ وہ بھی اس سے اس کی بیٹیوں نے کھانے کے لئے مانگ لی ، چنانچہ اس نے وہ کھجور بھی جسے وہ خود کھانا چاہتی تھی ، اس کے دو حصے کر کے اپنی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دی ، مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی ، میں نے اس واقعے کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ، تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " اللّہ تعالٰی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے کے لئے جنت واجب فرما دی ہے ( یا فرمایا) کہ اس کی وجہ سے اسے جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا ہے "
حجتہ الوداع کے موقع پر بھی اپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :۔
عورتوں کے بارے میں اللّہ سے ڈرتے رہنا
آخری خطبے میں بھی عورتوں سے اچھے سلوک کے بارے میں بھی زور دیا گیا ہے ۔
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Thursday, 28 July 2016

بیٹی


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
عورت 
جو ایک ماں ہے ، ایک بہن ہے ، ایک بیوی ہے اور پھر بیٹی کا روپ ہے ، ہر رشتہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو وہ عزت و احترام دیا جائے جو اس کا حق ہے ـ وہ عزت و احترام جو اس سے پہلے کسی مذہب میں عورت کو نہیں دیا گیا ، اسلام نے سب سے پہلے عورت کے حقوق دینے کی بات کی ـ اور پھر دنیا نے دیکھا اسلام نےاسی عورت کو ماں کے روپ میں جنت ، بہن کے روپ میں جنت کا حق دار ، بیوی کے روپ میں لباس اور بیٹی کے روپ میں اللّہ کی رحمت کہا ـ 
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسی عورت کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے ـ سب سے پہلے گھروں میں ہی بیٹا اور بیٹی کے درمیان فرق کیا جاتا ہے ـ بیٹے کو تو ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں لیکن بیٹی کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ـ جب ایک بیٹاگھر میں اس طرح کی صورت حال میں پرورش پائے گا تو وہ کیسے بیٹی کو اس کے حقوق دے گا ـ جبکہ اس نے ہمیشہ اپنے اپ کو برتر پایا ہے ـ اس احساس برتری کے ساتھ پرورش پانے والا بیٹا یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اسے دوسرے لوگوں کو بھی حقوق دینے ہیں ـ اور وہ دوسرے کوئی اور نہیں اس کے اپنے ہیں ـ 
بیٹی جو اللّہ کی رحمت کا دروازہ ہے ، بخشش کا ذریعہ ہے ، جہنم کی ڈھال ہے ـ لیکن ابھی بھی بہت سے لوگ بیٹی کی پیدائش پر خوشی محسوس نہیں کرتے ، جبکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ 
جس کسی نے دو یا تین لڑکیوں کی پرورش کی ، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں " انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے " 
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ ایک ادمی تھا ، اس ادمی کے پاس اس کا بیٹا ایا ، اس نے اسے بوسہ دیا ( یعنی شفقت سے چوما ) اور ران پر بیٹھا لیا ، پھر اس کی بیٹی ا گئی ، اس ادمی نے اسے پہلو میں بیٹھا لیا تو اپُرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ادمی سے فرمایا کہ تم نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا ؟؟؟ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹے اور بیٹی میں پیار اور شفقت  کا فرق کرنا سخت ناپسند گزرا

انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین

اللہ نے فرمایا


سورت التوبہ
رَضُوۡا بِاَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مَعَ الۡخَوَالِفِ وَ طُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ 
فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۸۷﴾
اردو:
یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں۔ (گھروں میں بیٹھ) رہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے تو یہ سمجھتے ہی نہیں
تفسیر مکی:
٨٧۔١ دلوں پر مہر لگ جانا یہ مسلسل گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔(87)
سورت الفرقان
وَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡحَیِّ الَّذِیۡ لَا یَمُوۡتُ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِہٖ ؕ وَ کَفٰی بِہٖ بِذُنُوۡبِ عِبَادِہٖ خَبِیۡرَا ﴿ۚۛۙ۵۸﴾
اردو:
اور اس (خدائے) زندہ پر بھروسہ رکھو جو (کبھی) نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔ اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے(58)
سورت الشوٰری
وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ﴿ؕ۳۲﴾
اردو:
اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں (جو) گویا پہاڑ (ہیں)
تفسیر مکی:
٣٢۔١ سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے تو سمندروں میں ہی کھڑے رہیں۔(32)

Thursday, 21 July 2016

ہمارا عمل


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ



آج کل ہر شخص اس بات کا گلہ کرتا ہے کہ سب لوگوں کے طور طریقے اچھے نہیں ہیں ـ سب لوگ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ـ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج کل سوشل میڈیا پر جو بھی اچھی بات پڑھتے ہیں اس کو دوسروں کو بھیج دیتے ہیں ، لیکن خود عمل کرنے میں صفر ہیں ـ جبکہ ہمیں پہلے خود عمل کرنا چاہیے اور پھر آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ـ جب ہم کسی بھی اچھی بات کو پڑھیں اور خود عمل کر کے دیکھائیں گے تو پھر ثواب کے لئے دوسرے کو کہنا نہیں پڑے گا اپ کا اچھا عمل دیکھ کر دوسرے خود عمل کریں گے ـ لیکن ہم دوسرے کے عمل کر کے ثواب لینا چاہتے ہیں ـ لیکن یہ سمجھ لیں کہ اپ کو بھی ثواب تبھی ملے گا جب اپ خود اس پر عمل کریں گے ، صرف دوسروں کو نصیحت کرنے سے اثر نہیں ہو گا ، نصیحت کا اثر بھی اس وقت ہوتا ہے جب اپ خود اس پر عمل کر رہے ہوں ـ کہنا آسان ہے اور عمل کرنا مشکل ہے لیکن پہلے اپ کو خود مثال بن کر دیکھانا ہے ـ اسی وقت تو معاشرے میں تبدیلی آئے گی صرف دوسروں کو کہنے سے تو کچھ بھی نہیں ہو گا ـ

ایک دفعہ ایک عورت اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اپنے بچے کے بارے میں عرض کی کہ اپ صلی ال
علیہ وسلم اسے شہد کی ایک قسم کھانے سے منع فرمائیں ، اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دو دن بعد آنے کے لئے کہا ـ دو دن بعد جب وہ عورت آئی تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے کو شہد کھانے سے منع فرمایا ، اس عورت نے عرض کیا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن بعد کیوں منع فرمایا ہے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن تم نے اپنے بچے کو شہد کھانے سے منع کرنے کے لئے کہا تھا تو اس دن میں نے خود بھی وہ شہد کھایا تھا تو میں بچے کو کیسے منع کر سکتا تھا اب میں نے خود بھی وہ شہد کھانا چھوڑا ہے تو تمہارے بچے کو بھی کھانے سے منع کیا ہے ـ
یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں بھی پہلے خود اچھی باتوں پر عمل کرنا ہو گا پھر دوسرے لوگوں کو عمل کے لئے کہا جا سکتا ہے ـ اگر اللّہ کے نبی عمل کرنے کے بعد نصیحت کر رہے ہیں تو ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا ہو گا صرف کہنا نہیں ہے ـ
اور ایک آخری بات۰۰۰۰
جب اپ کا دوست اسی طرح کی کوئی اچھی اور نیکی کی بات اپ کو بھیجے تو کیا اپ عمل کرتے ہیں جو اپ کے دوست کے لئے ثواب کا ذریعہ بنے؟؟؟؟
سوچئے گا ضرور۰۰۰
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Tuesday, 19 July 2016

خاندان


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
ماں ، باپ اور بچوں سے مل کر ایک خاندان بنتا ہے اور ایک گھر کی بنیاد پیار ، محبت ، بھروسہ ، سچائی، اعتماد ، ایک دوسرے کا خیال ، دکھ سکھ میں ساتھ دینا ، مشکل حالات سے مل کر لڑنا ، کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ، انھی باتوں پر رکھی جاتی ہے ـ اسی لئے ایک گھر کو اپ (گھر پیارا گھر ) کہتے ہیں
جب اپ کے خاندان پر کوئی مشکل وقت آتا ہے، تو گھر کے تمام افراد مل کر اس مشکل وقت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک دوسرے کی مدد کے لئے موجود ہوتے ہیں ـ اب چاہے وہ پریشانی سارے خاندان کے لئے ہو یا ایک فرد کی ہو سب ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ـ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اس مشکل وقت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ـ ایک دوسرے کی ہمت بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ـ مشکل وقت کا ساتھ اور مدد خاندان کے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنتی ہے ـ اور اپ کا یہ یقین بڑھ جاتا ہے کہ میں مشکل میں اکیلا نہیں ، میرے خاندان کے افراد میرے ساتھ ہیں ـ
اسی طرح جب خاندان میں خوشی کا موقع ہو تو اس وقت بھی سب ساتھ ہوتے ہیں ـ جس سے خوشی دگنی ہو جاتی ہے ـ اس وقت اپ کی پہلی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ اپ اپنے خاندان کے ساتھ اپنی خوشی منائیں ۔ جس سے آپس کے پیار و محبت میں اضافہ ہوتا ہے ـ خوشی اور غم میں اپنوں کی شرکت خوشی کو بڑھا اور غم کو گھٹا دیتی ہے ـ
بس اسی پختہ یقین کی ضرورت ہے کہ خاندان کے تمام لوگ دکھ اور سکھ میں ساتھ ہوں ـ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب گھر کے تمام افراد کا رویہ مثبت اور سوچ اچھی ہو ـ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے کا جذبہ ہو ـ پھر کوئی پریشانی ، پریشانی نہیں رہتی اور کوئی مشکل ، مشکل نہیں لگتی ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Sunday, 17 July 2016

درود شریف کی فضیلت

لسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ
.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ
.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ تک درود پہونچنے کا ذریعہ بیان فرماتے ہیں : بے شک الل کے کچھ فرشتے (مامور) ہیں جو ( دنیا کی محفلوں ، مجلسوں، اور مسلمانوں کے اس پاس) گھومتے رہتے ہیں ، میری امت کے (درود) سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( ایک مرتبہ) جبریل علیہ السلام سے میرے ملاقات ہوئ اور انھوں نے مجھے خوشخبری سنائی اور کہا کہ : اپ کا پروردگار فرماتا ہے کہ : جو شخص اپ پر درود بھیجے گا میں ( اس پر اپنی ) رحمت (خاص) نازل کروں گا اور جو اپ پر سلام بھیجے گا اس پر خاص) سلامتی نازل کروں گا ـ تو اس پر میں نے اللہ کی بارگاہ میں سجدۂ شکر ادا کیا ـ
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اذکارو دعا کا ( اپنا تمام وقت) اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے لئے ہی وقف کر دیا ہے ـ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب تو تمہاری تمام مشکلیں حل ( اور ضرورتیں پوری) ہو جائیں گی اور تمہارے گناہ بھی معاف ہو جائیں گے ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللّٰہ تعالٰی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائیں گےـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
ایک دن اپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک سے خوشی اور مسرت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس ( ابھی ابھی ) جبریل آئے اور کہا : اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے فرمایا ہے کہ : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا تم اس بشارت سے خوش نہ ہو گے کہ تمہاری امت میں سے جو شخص بھی تم پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا میں اس پر دس بار رحمتیں نازل کروں گا اور تمہاری امت میں سے جو شخص بھی تم پر ایک رتبہ سلام بھیجے گا تو میں دس مرتبہ سلامتی نازل کروں گا ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللّٰہ تعالٰی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں اور اس کی دس خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں اور ( جنت میں) اس کے دس درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں اور دس نیکیاں بھی اس کے لئے لکھ دی جاتی ہیں ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللّٰہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس پر ستر رحمتیں (اور رحمت کی دعائیں) بھیجتے ہیں ـ
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ہر دعا ( بارگاہ الہی تک پہونچنے سے ) رکی رہتی ہے یہاں تک کہ ( دعا کرنے والا ) اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آل ( اہل و عیال) پر درود بھیجتا ہے ( تب بارگاہِ الہی تک پہونچتی اور قبول ہوتی ہے )
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
(ہر) دعا آسمان و زمین کے درمیان رکی رہتی ہے ( اللّٰہ تعالٰی کی بارگاہ تک) اس کا کوئی حصہ بھی نہیں پہونچتا، یہاں تک کہ تم اپنے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجو ( تب وہ دعا بارگاہ الہی میں پیش اور قبول ہوتی ہے )
شیخ ابو سلیمان دارانی ( عبدالرحمٰن شامی متوفی ۲۱۵ھ ) رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا :
جب تم اللّہ تعالٰی اے (اپنی) کسی حاجت کی دعا مانگو تو اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجو پھر جو چاہتے ہو دعا مانگو اور آخر میں پھر درود و سلام بھیجو ـ ( یعنی ہر دوا کے اوّل و آخر درود شریف ضرور پڑھو) اس لئے کہ اللّہ سبحانہ تعالٰی ( حسب وعدہ ) اپنے کرم سے ان دونوں سروسوں کو تو قبول فرمائیں گے ہی اور ان کے کرم سے یہ بعید ہے کہ وہ انکے درمیان کی دعا کو چھوڑ دیں ( اور نہ قبول کریں )
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Thursday, 14 July 2016

درود شریف

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ
.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ
.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
حدیث شریف میں ایا ہے کہ :
جس مجلس میں بھی لوگ جمع ہوں گے اور وہ اس میں نہ اللہ تعالٰی کا ذکر کریں گے اور نہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ( علیہ افضل ا لصلوات و التسلیمات) پر درود و سلام بھیجیں گے قیامت کے دن ان کی وہ مجلس ان کے لئے ( ذکر اللہ اور درود و سلام کے ) ثواب ( سے محرومی کی وجہ سے) حسرت و افسوس کا باعث ہو گی اگرچہ وہ جنت میں بھی داخل ہو جائیں ـ
حدیث شریف میں ایا ہے کہ :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن کثرت سے مجھ پر درود (و سلام) بھیجا کرو کیونکہ تمھارا درود (و سلام) ( جمعہ کے دن خاص طور پر) میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
جو کوئی بھی شخص جمعہ کے دن مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کا درود ( خاص طور پر ) میرے سامنے ضرور پیش کیا جاتا ہے ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
جو شخص بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے ( خاص کر میرے روضہ پر کھڑے ہو کر) میری روح مجھ پر لوٹا دی جاتی ہے ( یعنی اس کی طرف متوجہ کر دی جاتی ہے ) یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ شخص ہو گا جس نے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہو گا ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اصلی) بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم کثرت سے میرے اوپر درود بھیجا کرو اس لئے کہ یہ درود تمہارے ( باطن کی تطہیر کے) لیے زکوٰتہ ( پاک کرنے کا ذریعہ) ہےـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص ذلیل و خوار ہو جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے سامنے میرا ذکر آۓ اس کو چاہیے کہ مجھ پر درود بھیجے، اس لئے کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللّٰہ تعالٰی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائیں گے ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :
اپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جو کوئی میرا ذکر کرے اس کو مجھ پر درود بھیجنا چاہیے ـ

نشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Friday, 1 July 2016

ذکر کی فضیلت

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
حدیث شریف میں ایا ہے کہ :۔
سرور کائنات صلی اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
کیا تم میں سے کوئ شخص ہر روز ہزار نیکیاں کمانے سے عاجز ہے؟
جو شخص سو مرتبہ سبحان اللّہ پڑھ لیتا ہے اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور ہزار برائیاں مٹا دی جاتی ہیں
اگر صرف دو کلمات پڑھنے سے اتنا اجر مل سکتا ہے تو زیادہ کلمات پڑھنے کا کتنا ثواب ہو گا یہ تو اللّہ کی امت محمدی پر خاص عنائت ہے کہ تھوڑی سی عبادت کا اتنا زیادہ اجر رکھا ہے جس میں بہت زیادہ محنت بھی نہیں کرنی اور روز قیامت میزان پر بھاری کلمات ہوں گے اور ہماری بخشش کا ذریعہ بھی ـ
جہاں بھی ہوں اور جس وقت بھی ہو سکے ان کلمات کا زیادہ سے زیادہ ذکر کریں ورنہ کم از کم دن میں ایک دفعہ
تو ضرور پڑھیں ـ
 سبحان اللّہ
 الحمداللّہ
 اللّہ اکبر
 سبحان اللّہ وبحمد
 سبحان اللّہ العظیم
 سبحان اللہ وبحمد سبحان اللہ العظیم
 رب زدنی علما
 اللھمہ اجرنی من النار
 رب اغفر وارحم انت خیر الراحمین
 اللھمہ انا نجعلک فی نحو رحم و نعوذبک من شرورھم
 لا الہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظلمین
 استغفراللّٰہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ
 حسبنا اللّہ و نعم الوکیل علی اللّہ توکلنا
 لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
 اشھدان لا الہ الا اللّہ وحدہ لا شریک لہ واشھدان محمدًا عبدہ ورسولہ
 سبحن اللّہ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اللّہ واللّہ اکبر ولا حول ولا قوتہ الا باللّہ العلی العظیم
 لا الہ الا اللّہ وحدہ لا شریک لہ لہٗ الملک ولہ الحمد یحی ویمیت وھو علی کل شیٍ قدیر

ان میں سے کچھ کلمات کے پڑھنے کی فضیلت بتائی گئی ہے انشاءاللّہ باقی کلمات کی فضیلت آیندہ کی تحریر میں بتائی جائے گی ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Wednesday, 29 June 2016

کلمہ توحید کی فضیلت

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، لہٌ الملک ولہ الحمد یحیی ویمیت وھو علی کل شئٍ قدیر
کم از کم ایک مرتبہ اور زیادہ سے زیادہ جتنا بھی ہو سکے یہ کلمہ توحید پڑھا کرے :۔
حدیث شریف میں ایا ہے کہ :۔
جو شخص اس کلمہ توحید کو دس مرتبہ پڑھے گا تو وہ اس شخص کے مانند ہو گا جس نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد (عرب قوم) میں سے چار نفر آزاد کئے ہوں :۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ :۔
اور جو سو مرتبہ یہ کلمہ پڑھے گا اس کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کی سو بدیاں مٹا دی جائیں گی اور یہ کلمہ اس کے لئے شیطان سے بچاو کا سامان (محافظ) ہو گا اور قیامت کے دن کوئی بھی اس سے افضل عمل پیش کرنے والا نہ ہو گا بجز اس شخص کے جس نے اس سے بھی زیادہ یہ کلمہ پڑھا ہو گا ـ
یہی وہ کلمہ ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو سکھلایا تھا (مگر اس نے اس سے کام نہ لیا اور طوفان میں ہلاک ہو گیا) اس لئے کہ اگر تمام آسمان ایک پلڑے میں (رکھے) ہوں (اور یہ کلمہ دوسرے پلڑے میں) تو یہ کلمہ ان سے بڑھ جائے گا اور اگر (سب) آسمان حلقہ کے مانند ہوں تو یہ کلمہ (اپنے بوجھ سے) ان کو ملا دے گا
کثرت سے یہ کلمہ پڑھا کرے:۔
لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوتہ الا باللہ العلی العظیم
لا الہ الا اللہ اور واللہ اکبر دو کلمے ہیں ، ان میں سے ایک ( لا الہ الا اللہ ) تو عرش سے کہیں رکتا ہی نہیں اور دوسرا (اللہ اکبر) آسمان اور زمین کے درمیان (فضا) کو بھر دیتا ہے
یہ دونوں کلمے ولا حول ولا قوتہ الا باللہ العلی العظیم کے ساتھ (مل کر) تو روئے زمین پر جو شخص بھی ان (تینوں کلمات) کو پڑھے گا اس کی خطاؤں ( اور گناہوں) کا ضرور کفارہ کر دیا جائے گا اگرچہ وہ سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Tuesday, 28 June 2016

قوتِ فیصلہ کی کمی

لسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپ نے کوئی کام کرنا ہے لیکن اپ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپ سے نہیں ہو سکے گا ـ اپ خود کو اس قابل نہیں پاتے کہ اس کام کو سرانجام دیں سکیں اور ایسا تبھی ہوتا ہے جب اپ میں فیصلہ کرنے کی طاقت نہین ہوتی اور نہ ہی یقین کہ میں کر سکتا ہوں ـ
پریشانی انسان کو یا تو
توڑ دیتی ہے
یا
مضبوط بنا دیتی ہے
اوریہی وہ لمحہ ہے جب اپ کی ساری زندگی کا فیصلہ ہو جاتا ہے کہ اپ پریشانی کا مقابلہ کریں گے یا پھر کبوتر کی طرح انکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں گے ـ اور حالات کے بدلنے کا انتظار کرتے رہیں گے ـ یقین کریں حالات کو بدلنے کوئی نہیں آۓ گا یہ اپ کو خود اپنی محنت اور بروقت فیصلہ سے بدلنے ہیں ـ
جب ایسا ہو کہ اپ کسی کام کو کرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیں پا رہے تو سب سے پہلے اپ یہ فیصلہ کریں کہ مجھے یہ کام کرنا ہے یا نہیں ـ
اگر کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر اپ وہ وجوہات تلاش کریں ، جن کی وجہ سے اپ کا کام نہیں ہو رہا ـ اب ان وجوہات میں سے کچھ ایسی ہوں گی ، جو اپ کو ناممکن لگ رہی ہوں گی اور کچھ ایسی ہوں گی جو قابلِ عمل ہوں گی تو سب سے پہلے ممکن صورتِ حال سے کوشش شروع کریں ـ اپ دیکھیں گے کہ آہستہ آہستہ اپ کی قوتِ ارادی بڑھنے لگے گی اور ایک نئی ہمت اور حوصلہ پیدا ہو گا ـ ہو سکتا ہے کہ کچھ ناکامی بھی راستے میں آئے، لیکن اپ نے اس کی پرواہ نہیں کرنی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے کامیابی کی طرف چلنا ہے کیونکہ مضبوط قوتِ ارادی کے ساتھ ہی اپ کامیاب ہوں گے ـ
اب آتے ہیں کہ اگر اپ کام نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیا ہو گا ـ اگر اس وقت اپ یہ سوچیں کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا ـ کم از کم مجھے ایک بھرپور کوشش تو کرنی چاہیے ـ ہم ناکامی کے خوف کی وجہ سے کام نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن جب اپ ناکامی کا سامنا کرنے کے لئے پہلے ہی خود کو تیار کر لیں تو زیادہ اسانی ہو گی کیونکہ اگر اپ ناکام ہوں گے تو خود کو باور کرائیں گے کہ مجھے علم تھا ـ اور اگر کامیاب ہو گئے تو یقیناً اپ میں جس خود اعتمادی کا اضافہ ہو گا وہ اپ کی آئندہ زندگی کو بنا دے گی ـ ہم ناکام ہونے کے خوف سے کوشش نہیں کرتے ، پہلے ہی کامیابی کا فیصلہ کر لیتے ہیں ـ اور ناکام ہونے پر کوشش چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ـ
تیسری چیز جو ایسے وقت میں ہماری مدد کرتی ہے وہ ہمارے ساتھ اردگرد کے لوگ ہیں جو اپ کی ہمت افزائی کریں اور فیصلہ کرنے میں مدد کریں اس بے یقینی کی صورتِ حال سے نکلنے میں مدد کریں تو بھی اپ کامیاب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لیں گے ـ کیونکہ ناکامی کے وقت وہ اپ کو حوصلہ دیں گے اور کامیابی میں ہمت افزائی کریں گے ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Monday, 27 June 2016

وسائل کم اور مسائل زیادہ

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
جب زندگی میں ایسا وقت آئے کہ اپ کے پاس وسائل کم ہوں اور مسائل زیادہ ، تو ایسے میں زندگی کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے ـ کیونکہ ہمیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان حالات میں کیا کریں ـ اور نہ ہی ہم نے سوچا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے ـ ہم اچھے خاصے سمجھ دار اور پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ضروری اور غیر ضروری کے فرق کو نہیں سمجھ پاتے ـ
مثال کے طور پر
کھانا کھانا ایک ضروری عمل ہے جو کہ گھر میں کھایا جاۓ تو ضروری عمل ہے لیکن ہوٹل میں کھانا غیر ضروری عمل ہے جب وسائل کم ہوں ـ بس اسی فرق کو جب اپ سمجھ جائیں گے تو اسانی ہو سکتی ہے اور مزید مشکلات پیدا ہونے سے بچا سکتا ہے ـ
بزرگوں کا قول ہے :۔
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں
یقیناً یہ بھی کسی ایسی ہی صورتِ حال کے بارے میں کہا گیا ہو گا ـ ہمارے بزرگ بہت عقل مند لوگ تھے انھوں نے زندگی کی مشکلات سے کچھ سیکھنے کے بعد ہی یہ بات کی ہے ـ
لیکن آج ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ سر کو ڈھانپیں تو پاؤں ننگے اور پاؤں ڈھانپیں تو سر ننگا ـ
ایسی صورت میں انسان کے ذہن میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں جو ہمیں غلط عمل کی طرف لے کر جاتے ہیں ـ ہماری سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے ـ غلط اور صحیح کا فرق ختم ہو جاتا ہے ـ
جب بھی ایسا وقت اۓ کہ وسائل کم ہوں تو سب سے پہلے ان چیزوں کو ختم کر دیا جاۓ جو غیر ضروری ہیں جن کے بغیر گذارا ہو سکتا ہے ـ اور وہ تمام ضروریات زندگی جو کہ ضروری ہیں انھیں پہلے سرانجام دیں ـ پھر اپنے وسائل کو بڑھانے کی کوشش بھی کرتے جائیں بےشک اس میں اپ کو کامیابی نہ ملے یا تھوڑی کامیابی ملے ـ ہمت اور حوصلے سے وقت گذاریں ـ اور ان لوگوں کی بھی ہمت میں اضافہ کریں جو اپ کی ذات سے وابستہ ہیں ـ یہ یقین رکھیں سدا وقت ایک سا نہیں رہتا اگر اچھا وقت نہیں رہا تو یہ مشکل وقت بھی گزر جاۓ گا ـ
ایک مشکل دن بھی چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا بس برداشت کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے یہی چیز سیکھنے کے عمل کو بڑھاتی ہے اور اپ کامیابی کی منزل تک پہنچ پاتے ہیں ـ زندگی میں کبھی بھی سب دروازے بند نہیں ہوتے بس کون سا دروازہ ہمارا ہے یہ ڈھونڈنے کے لیۓ محنت کی ضرورت ہے ، صبر کی ضرورت ہے ـ جو اپ کے لئے ہے ، وہ اپ ہی کے لئے ہے ، اسے اپ کے سوا کوئی نہیں لے سکتا ـ اللّہ پر پختہ یقین رکھیں ـ اللّہ پر یقین ، مسلسل محنت ، مضبوط قوتِ ارادی کے ساتھ اپ کامیابی کی منزل سے زیادہ دور نہیں ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Saturday, 11 June 2016

لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ


جہاں بھی ہو ، جس وقت بھی ہو جتنا ممکن ہو لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ کا ذکر کرےـ
حدیث شریف میں ایا ہے کہ :-
وہ ذکر جو کسی وقت ، جگہ اور سبب کے ساتھ مخصوص نہیں وہ لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ ہی ہے ـ
سب سے افضل ذکر ہے ـ
دوسری حدیث میں ہے :
یہی سب سے بڑھ کر نیکی ہےـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ بہرہ ور وہ شخص ہو گا جس شخص نے دل و جان سے (یعنی) خلوص قلب کے ساتھ لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ کہا ہو گا ـ
ایک اور حدیث میں ہے کہ :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
جاس شخص نے لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ کہا اور اس کے دل میں جَو برابر بھی خلوص یا ایمان ہو گا وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا ، اور جس شخص نے یہ کلمہ کہا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ کے برابر بھی خلوص یا ایمان ہو گا وہ بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا ، اور جس نے یہ کلمہ کہا اور اس کے دل میں ذرہ برابر بھی بھلائی یا ایمان ہو گا وہ بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :۔
جس شخص نے (دل سے) لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ کہا وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا اگرچہ اس نے زنا اور چوری (جیسے گناہ) بھی کئے ہوں ، اگرچہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو ، اگرچہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو (تین مرتبہ فرمایا)
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔
تم اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہا کرو ـ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایمان کو کس طرح تازہ کریں ، اپ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کثرت سے لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ کہتے رہا کرو ـ
ایک اور حدیث میں ایا ہے کہ :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ کو اللّہ تک پہنچنے سے کوئی چیز نہیں روکتی ـ
ایک اور حدیث میں ہے :
لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ (کا ذکر) کوئی گناہ باقی نہیں رہنے دیتا ، اور کوئی بھی عمل اس کے برابر نہیں ہے ـ
ایک اور حدیث میں ہے کہ :۔
اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ترازو کے ایک پلڑے میں ہوں اور لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ دوسرے پلڑے میں ہو تو وہ ان سب سے بڑھ جائے گا ـ
اور ایک حدیث میں ایا ہے :۔
جب بھی کوئی بندہ دل سے لآاِلٰہَ اِلاَّ اللّہُ کہتا ہے اس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچ جاتا ہے ، جب تک کہ وہ بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہا ہو ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Friday, 10 June 2016

یقینِ محکم

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں ، اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے ـ امین ـ
جب اپ مشکل حالات کا مقابلہ اپنی پوری ہمت اور حوصلے سے کرتے ہیں تو خود اپنے اپ میں ایک یقین کا عنصر پیدا ہوتا ہے کچھ حاصل کر لینے کا، کچھ بننے کا عمل شروع ہوتا ہے ـ جو اپ کو کامیابی کی منزل کی طرف لے کر جاتا ہے ـ اگرچہ کامیابی کا تناسب کم ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ جو ایک اپنی ذات میں پیدا ہونے والا یقینِ محکم ہے اس کو ختم نہ ہونے دیں ـ اگر دس میں سے ایک مشکل یا پریشانی میں ہی اپ کو کامیابی کیوں نہ ملی ہو اور کامیابی اور ناکامی کا تناسب ۱/۹ ہی کیوں نہ ہو اپ اس تناسب کو بڑھاتے ہوئے زندگی میں آگے بڑھتے جائیں اپ دیکھیں گے کہ ایک وقت آئے گا یہ تناسب ۹/۱ کا ہو گا ـ اندھیرے میں ایک چھوٹے سے دیے سے روشنی کا دھندلا سا عکس نظر آتا ہے پھر وہ عکس زیادہ واضح ہونا شروع ہوتا ہے اور پھر سب کچھ صاف نظر آنے لگتا ہے ـ کامیابی اور ناکامی میں بھی یہی فرق ہے پہلے کچھ دھندلا سا نظر آئے گا پھر اور واضح ہو گا اور پھر کامیابی سامنے نظر آنے لگے گی ـ
بس کچھ پا لینے کی جستجو ہی انسان کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے اس کو اپنی ذات سے ختم نہیں ہونے دینا ہے اور زندگی کے تمام حالات کا مقابلہ کرنا ہے کامیابی خود اپ کے قدم چومتے گی ـ
ابراہیم لنکن
جسے دنیا امریکہ جیسے ملک کے صدر کے طور پر جانتی ہے اس نے اپنی زندگی میں بہت جدوجہد کی ہے ـ جس کام کو شروع کیا ناکامی ہوئی کیا کاروبار، کیا منگنی، کیا سیاست، غرض جس کام کو شروع کیا ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا ـ لیکن اس نے ہمت ہیں ہاری ہر بار نئی ہمت اور حوصلے سے کام کیا پوری زندگی میں دو یا تین دفعہ کامیابی ہوئی باقی سب ناکامی ہی کی کہانیاں ہیں لیکن اس نے اپنے یقین کو ٹوٹنے نہیں دیا
کچھ پا لینے کا یقین
کچھ بننے کا یقین
کچھ کرنے کا یقین
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ امریکہ کا صدر بنا جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھی ـ وہ ۱/۹ کی تناسب سے ملنے والی کامیابی ـ
زندگی میں جہد مسلسل سے ہی کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے ـ بس حوصلہ نہیں ہارنا اور ہمت کو ٹوٹنے نہیں دینا، تو پھر کچھ بن جانے کا یقین بڑھے گا اور اپ کامیاب ہوں گے ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی ـ اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ امین ـ

Thursday, 9 June 2016

خود اعتمادی




السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے امین
جب اپ کسی مشکل میں ہوں تو اپ کے پاس دو راستے ہوتے ہیں ـ
ایک تو یہ کہ اپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کریں ـ راستہ دیکھائی نہیں دیتا ـ کوئی ہمدرد نظر نہیں آتا جو اس مشکل سے نکلنے میں مدد کرے یا کوئی ایسا مشورہ دے کہ اپ اس پریشانی سے نکل سکیں ـ کوئی ایسا شخص مل جائے جو ایسا حل بتا سکے کہ ہم اس تکلیف دہ دور سے نکل جائیں ـ ایسے وقت میں ذہن میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور اپ مزید غلط طرف چلے جاتے ہیں ـ یہ منفی سوچ منفی عمل کی طرف لے کر جاتی ہے اور شیطان کا کام آسان ہو جاتا ہے وہ ہمیں گناہوں کی طرف لے جاتا ہے ـ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہیں ہماری ہمت جواب دے جاتی ہے ـ ہم جو بھی کام کرتے ہیں وہ غلط ہوجاتا ہے کیونکہ ہم غلط سوچ رہے ہوتے ہیں تو غلطی پہ غلطی ہی ہوتی جاتی ہے
لیکن
دوسری طرف اگر ہم پریشانی میں صرف پریشان ہونے کی بجائے اپنے اپ کو تھوڑا سا حوصلہ دیں کہ میں اس مشکل وقت سے نکل سسکتا ہوں اس پریشانی کا مقابلہ کر سکتا ہوں تو ہمیں کسی بھی شخص کی ضرورت نہیں ہو گی ـ مشکل وقت میں گبھرانے کی بجائے اس سے نکلنے کے بارے میں سوچیں ، مثبت انداز سے چیزوں کو دیکھیں ـ کوئی بھی مشکل ایسی نہیں ہوتی جس کا کوئی حل نہ ہو ـ یہ یقین کر لیں کہ اپ اس پریشانی سے لڑ سکتے ہیں اور پھر لڑنے کی تیاری کر لیں ـ جیسے ہی اپ نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس مشکل وقت سے لڑوں گا ایک خود اعتمادی کا احساس پیدا ہو گا جو اپ کو مثبت سوچ اور پھر مثبت عمل کی طرف لے کر جائے گا ـ سامنے کا راستہ نظر آنے لگے گا ـ اگر اپ پوری طرح کامیاب نہ بھی ہوں تو کسی نہ کسی حد تک کامیابی ضرور ملتی ہے جو ہماری خود اعتمادی میں اضافہ ہی کرتی ہے ـ یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ اگر کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے تو پھر کوئی بھی مشکل مشکل نہیں لگتی اور نہ ہی پریشانی کا خیال دل میں آتا ہے ـ نہ ہی اپ کسی دوسرے شخص کی مدد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جو آئے اور اپ کو اس مشکل سے نکالے ـ
اب یہ فیصلہ اپ کو کرنا ہے کہ مشکل میں کون سا راستہ اختیار کرنا ہے ـ
لڑنے اور کامیاب ہونے کا
یا
ہتھیار ڈال دینے کا
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں امین

Tuesday, 7 June 2016

رمضان المبارک

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے امین ـ


رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کا وقت ہے اللّہ کی بےشمار برکتیں ـ فضیلتیں ـ اور رحمتیں اس ماہ میں نازل ہوتیں ہیں اور منادی پکارنے والا کہتا ہے کہ ہے کوئی جو اس ماہ میں اللّہ کو
منا لے اس کی نعمتوں کو سمیٹ لے ـ
رمضان
رحمتوں کا مہینہ ـ بخشش کا مہینہ ـ گناہوں کی معافی کا مہینہ ـ نیکیوں کو سمیٹنے کا مہینہ ـ جنت کے حصول کا مہینہ ـ جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ـ
بس ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی ضرورت ہے تسبیحات پڑھنے کی ضرورت ہے زندگی کے تمام مسائل تو چلتے ہی رہیں گے لیکن یہ اتنا بابرکت ماہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اتنا کہ اگر ہمیں اس کا پتا چل جائے تو ہم خواہش کریں کہ سارا سال رمضان کا مہینہ ہو اور روزہ اس کا اجر تو خود اللّہ کہتا ہے کہ
" روزہ میرے لیئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا "
اپ خود سوچیں اگر ہماری نیکیوں کے اجر ستر گنا بڑھ سکتے ہیں تو اللّہ کی لامحدود برکتوں اور فضیلتوں کی ہم پر کتنی بارش ہو گی جب ہم اس کی رضا کے لئے روزہ رکھیں گےـ
لیکن ہمارا زیادہ وقت بازار سے خریداری کرنے اور سحری اور افطاری کی تیاری کرنے میں گذر جاتا ہے اگر ہم رمضان سے پہلے ہی کپڑوں کی خریداری کر لیں اور رمضان میں سادہ سحری اور افطاری کا اہتمام کریں گے تو ہمیں عبادت کرنے کا بہت وقت مل جائے گا اور روزے کا جو اصل مقصد ہے کہ غریب کی بھوک کا اندازہ ہو وہ بھی تب ہی پورا ہو گا اللّہ کی لامحدود رحمتوں اور برکتوں کو بھی تب ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اس رمضان میں یہ ارادہ کریں کہ روزے کو اس کی مقصدیت کے ساتھ گزاریں گے تو اپ اس ماہ کا صحیح لطف لے سکتے ہیں ـ
نماز کی پابندی کریں ـ قرآن کی تلاوت کریں ـ استغفار پڑھیں ـ زیادہ سے زیادہ پہلا کلمہ پڑھیں ـ درود شریف کثرت سے پڑھیں ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں ـ

Wednesday, 1 June 2016

مثبت اندازِ زندگی


السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے امین
ہمیں جب بھی کوئی پریشانی یا تکلیف ہو تو ہم شور کرنے لگتے ہیں -
ہائے پریشانی ہائے پریشانی
اور پھر یہ ہوتا ہے کہ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے ـ ہمارا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رہتی ہے ـ پھر جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو ہم منفی انداز سے سوچنے لگتے ہیں ـ منفی خیالات دماغ میں آنے لگتے ہیں ـ انسان کی ساری خرابی اور بربادی کا عمل یہیں سے شروع ہوتا ہے اور اپ سے ایک کے بعد دوسرا غلط عمل سرزد ہونا شروع ہو جاتا ہے
لیکن اگر
ایسے وقت میں اپنے اپ کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ کوئی بھی مشکل ناممکن نہیں اگر اس کے حل کی طرف جایا جائے
مثال کے طور پر اگر
اپ کو کوئی بھی مشکل یا پریشانی کا معاملہ پیش آئے تو سب سے پہلے اس کے ممکن حل کا سوچیں کہ اس کو کس طرح حل کیا جائے ـ ایک کے بعد دوسرے اور یہاں تک کہ تیسرے کے بارے میں سوچیں اور پھر اس پر عمل کرنا شروع کر دیں ـ اس کو کیسے حل کیا جائے ـ کون سے عوامل اختیار کیے جائیں کہ مشکل آسان ہو جائےـ پھر اپ دیکھیں گے کہ نہ صرف اپ کا حوصلہ بڑھے گا بلکہ زیادہ بہتر طریقے سے مشکل حالات سے نبٹا جائے گاـ مثبت سوچ اور عمل کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے چیزیں آسان ہونا شروع ہو جائیں گی ـ کوئی بھی تکلیف دہ عمل اپ کو ٹوٹنے نہیں دے گا ـ اپ میں قوتِ ارادی بڑھ جائے گی ـ اس طرح صحیح فیصلہ کر کے اپ خود اعتمادی کی دولت سے ہمکنار ہوں گے جو آئندہ زندگی میں بھی اپ کے کام آئے گی ـ
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں امین

Thursday, 26 May 2016

حصہ دوم " اعمال کا دارومدار نیت پر ہے "

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے امین
اسلام ایک مکمل دین ہے ـ یہ ہمیں زندگی گزارنے کے تمام طریقے بتاتا ہے ـ روزمرہ زندگی کے سب معاملات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اسلام صرف
اللّہ کی عبادت کرنےکا نام نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں سونے ، جاگنے ، کھانے ، پینے ، رزقِ حلال کمانے، شادی ، طہارت کے مسائل ، بچوں کی تعلیم و تربیت ، نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے، حقوق و فرائض کی ادائیگی غرض زندگی کے ہر معاملے میں ہماری رہنمائی کے لئے احکام موجود ہیں ۔ بس دیکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم ان سب پر عمل کیسے کرتے ہیں ۔ ان کو ادا کرنے کی نیت کیا کرتے ہیں
مثال کے طور پر اگر ہم سونے سے پہلے سونے دعا پڑھ کر سوئیں تو ہمارا سونا ایک عبادت میں لکھا جائے گا جب رات کو سونے کے لئے بستر پر لیٹنے لگیں تو یہ دعا پڑھنی چاہیے
اَللّٰھُمَّ بِاسٌمِکَ اَمُوٌتُ وَاَحٌیٰ
ترجمہ
اے اللّہ میں تیرے ہی نام پر مروں گا اور تیرے ہی نام پر جیتا ہوں
زندگی میں نیکی کے یہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانا شروع کریں انشاُٗاللہ تمام کاموں میں خیر اور برکت دینے والا اللّہ ہے نیکی کے کاموں میں خودبخود دل لگنے لگے گا اور برائیوں سے نفرت ہوتی جائے گی اور اپ دیکھیں گے کہ زندگی کتنی آسان ہو گئی ہے
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں

Sunday, 22 May 2016

اللّہ سے امید اور امت المسلمین کے لئے دعا گو

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے امین
اللّہ سے امید اور امت المسلمین کے لئے دعا گو
ہم سب کو اللّہ نیکی کرنے کی اور برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے امین




بِسْمِ اللهِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
In the name of Allah, by Whose name nothing on the earth or in the heavens can cause harm, and He is the All Knowing, the All-Hearing.
الله کے نام سے، وه ذات جس کے نام کے ساتھ کوئی چیز زمین میں اور آسمان میں نقصان نہیں دے سکتی اور وه سننے والا، جاننے والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَ الْفَقْرِ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، لَا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ۔
O Allah! Grant well-being to my body, O Allah! Grant well-being to my hearing, O Allah! Grant well-being to my sight. There is no true deity except You.
O Allah! I seek refuge in You from disbelief/ingratitude and poverty. O Allah! I seek refuge in You from the punishment of the grave. There is no true deity except You.
اے الله! میرے بدن میں مجھے عافیت دے، اے الله! میرے کانوں میں مجھے عافیت دے، اے الله! میری آنکھوں میں مجھے عافیت دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اے الله! یقینا میں تیری پناه چاہتا ہوں کفر اور فقر و فاقه سے، اے الله! بے شک میں تیری پناه چاہتا ہوں عذابِ قبر سے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ وَ اَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَ وَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ اِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔
O Allah! You are my Lord, there is no true deity except You. You created me and I am Your servant, I abide by Your covenant and promise to the best of my ability. I seek refuge with You from the evil of which I have committed. I acknowledge Your blessings upon me and I acknowledge my sin, so forgive me for verily none forgives sins except You.
اے الله! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بنده ہوں اور میں اپنی استطاعت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، میں تیری پناه چاہتا ہوں ہر برائی سے جو میں نے کی، میں اپنے اوپر تیری عطا کرده نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے گناه کا اعتراف کرتا ہوں، پس
مجھے بخش دے، یقینا تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا




اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَةِ،
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَةَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَاَھْلِیْ وَ مَالِیْ، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِیْ وَ آمِنْ رَوْعَاتِیْ، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَ مِنْ خَلْفِیْ وَ عَنْ یَّمِیْنِیْ وَ عَنْ شِمَالِیْ وَ مِنْ فَوْقِیْ وَ اَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ۔
O Allah! Verily I ask You for wellness in this life and in the hereafter. O Allah! I ask You for forgiveness and well-being in my religion and in my worldly affairs and in my family and my wealth. O Allah! Cover up my defects and change my fear into peace. O Allah! Protect me from front and from behind and on my right and on my left and from above and I seek refuge in Your Magnificence lest I am destroyed from beneath me.
اے الله! بے شک میں آپ سے دنیا اور آخرت میں عافیت مانگتا ہوں، اے الله! بے شک میں آپ سے درگزر کا اور اپنے دین، دنیا، اہل اور مال کی عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے الله! میرے عیب ڈھانپ دے اور مجھے خوف سے امن دے۔ اے الله! میری حفاظت کر، میرے سامنے سے اور میرے پیچھے سے اور میرے دائیں سے اور میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے اور میں پناه چاہتا ہوں تیری عظمت کے ذریعے اس سے که میں نیچے سے ہلاک کیا جاؤں۔
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں بات ہو گی اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں

" اعمال کا دارومدار نیت پر ہے "

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے امین
" اعمال کا دارومدار نیت پر ہے "
کافی عرصہ پہلے یہ واقعہ پڑھا تھا
ایک ادمی نے نیا گھر بنایا اور ایک بزرگ کو اپنا گھر دیکھایا تو بزرگ نے اس شخص سے پوچھا کہ تم نے اپنے گھر میں کھڑکی اور روشندان کیوں بنائے ہیں تو اس شخص نے جواب دیا اس لئے کہ گھر روشن اور ہوادار رہے تو ان بزرگ نے جواب دیا کہ روشنی اور ہوا تو اس میں سے آنی ہی تھی لیکن اگر تم روشندان اور کھڑکی بنانے کی نیت یہ رکھتے کہ یہاں سے اذان کی آواز آئے تو تمہیں اس کے بنانے کا ثواب بھی ملتا
ساری بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم روزمرہ زندگی میں تمام معاملات کی اسی طرح نیت رکھیں تو کام بھی ہو جائے گا اور اللّہ سے ثواب کا ذریعہ بھی بنے گا
مثال کے طور پر ہم کھانا اس لئے نہ کھائیں کہ ہمیں بھوک لگی ہے بلکہ نیت یہ ہو کہ
اے اللّہ یہ کھانا ہم اس لئے کھا رہے ہیں کہ اس کو کھانے سے ہم طاقت حاصل کریں اور تیری عبادت کریں زندگی کے وہ سب فرائض ادا کرنے کی ہمت ہو جو تو نے ہم پر فرض کئے ہیں تو ہمارے روزمرہ کے تمام کام عبادت بن جائیں گے
مثال کے طور پر
ایک عورت گھر کے جو کام کرے گی بچوں کی دیکھ بھال ان کی تعلیم و تربیت کھانا بنانا
ایک مرد گھر سے باہر جا کر کما کر لاتا ہے اور اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا ہے
یہ سب فرائض اللّہ نے ہم پر فرض کئے ہیں اور ہم اسی فرض کو پورا کرنے کے لئےکام کرتے ہیں تو بس نیت یہ ہو کہ چونکہ یہ سب اللّہ نے فرض کیا ہے اسی لئے ہم کر رہے ہیں تو نہ صرف وہ کام عبادت بن جائے گا بلکہ اللّہ کی رحمت اور برکت بھی ہمارے ساتھ ہو گی
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں امین

Blessed & Positive

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
خوش رہیں اللہ اپ سب کو اپنی حفظ و امان مین رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے امین
آج ہم اس صفحے کے بارے میں بات کریں گے کہ اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا اس کے نام کو دیکھا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہو گااس صفحے کے نام کا پہلا حصہ
Blessed 
مطلب رحمت یعنی اللہ کی رحمت کے بغیر ہم دنیا میں کچھ بھی نہیں کر سکتے اور اس کا دوسرا حصہ
Positive
مثبت یعنی جب تک ہم اپنی سوچ اور عمل کو مثبت نہیں رکھیں گے اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتےمحنت اور کوشش کرنا ہمارا فرض ہے پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں وہ اپنے بندے کے لئے بہتر ہی کرتا ہے
ہم مذہب کو معاشرے سے اور معاشرے کو مذہب سے الگ نہیں کر سکتے اسلام دین اور دنیا دونوں کا نام ہے اور یہاں ہم ان دونوں پر بات کریں گے
انشاُٗاللہ آئندہ تحریر میں مزید بات ہو گی اللّہ اپ کا حامی و ناصر ہو اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا ہوں امین